Khalifa-e-Sani Hazrat Umar Farooq Ibn-e- Khattab
خلیفہء ثانی حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالی عنہ
خلیفۂ ثانی سیدنا عمر ابن خطا ب ؓ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے سیدنا عمر ابن خطاب ؓ سے شکایت کی کہ اے امیر المومنین گورنر مصر حضرت عمروبن العاصؓ کے بیٹے محمد بن عمرؓو نے میری پشت پر آٹھ کوڑے مارے ہیں اور کہتا ہے کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں خلیفہ ٔ دوئم نے حکم فرمایا کہ محمد بن عمرو کو گرفتار کرکے لایا جائے اور عمروبن العاصؓ کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ۔جب محمدبن عمرو ؓ کو گرفتار کرکے لایا گیا تو حضرت عمرؓ نے اس آدمی سے کہا کہ گورنر کے بیٹے محمد بن عمرؓ وکی پشت پر آٹھ کوڑے مارو۔
اس متاثرہ شخص نے گورنرکے بیٹے کی پشت پرکوڑے مارے تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے اس آدمی سے کہا کہ اب عمروبن العاصؓ کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے ؟اس پر اس آدمی نے کہا کہ اے امیرالمومنین !عمروبن العاصؓ نے تو مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا لہٰذا میں انھیں معاف کرتا ہوں ۔اس کے بعد خلیفہ ٔ دوئم عوام کے جم غفیر کے سامنے گورنر مصرحضرت عمروبن العاص ؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا اے عمروبنالعاصؓ تمھیں کیا ہوگیا ؟لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔( ایک جرمنی کی پارسی لڑکی اس واقعہ کی وجہ سے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے سیرت سیدنا عمرؓ پر 7000 انگریزی کی کتب جمع کیں اور ایک انٹرنیشنل لائبریری بنائی اور اس نے ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا جس میں 1000 دنیا کے بڑے دانشوروں نے شرکت کی اس نے مقالہ پیش کیا جسمیں یہ اعتراف کیا گیا کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار سیدنا عمر بن خطابؓ ہے
کیونکہ حضرت عمرؓ نے انسانوں کو تمام بنیادی حقوق دئیے اورآپ ؓ کے ان الفاظ ” اے عمروبن العاصؓ تمھیں کیا ہوگیا ؟لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے حالانکہ ان ماووں نے انھیں آزاد جنا ہے ؟” نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔