ISLAMIC INFO لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ISLAMIC INFO لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 28 اپریل، 2020

Khalifa-e-Sani Hazrat Umar Farooq Ibn-e- Khattab



Khalifa-e-Sani Hazrat Umar Farooq Ibn-e- Khattab

خلیفہء ثانی حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالی عنہ

خلیفۂ ثانی سیدنا عمر ابن خطا ب ؓ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے سیدنا عمر ابن خطاب ؓ سے شکایت کی کہ اے امیر المومنین گورنر مصر حضرت عمروبن العاصؓ کے بیٹے محمد بن عمرؓو نے میری پشت پر آٹھ کوڑے مارے ہیں اور کہتا ہے کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں خلیفہ ٔ دوئم نے حکم فرمایا کہ محمد بن عمرو کو گرفتار کرکے لایا جائے اور عمروبن العاصؓ کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ۔جب محمدبن عمرو ؓ کو گرفتار کرکے لایا گیا تو حضرت عمرؓ نے اس آدمی سے کہا کہ گورنر کے بیٹے محمد بن عمرؓ وکی پشت پر آٹھ کوڑے مارو۔
اس متاثرہ شخص نے گورنرکے بیٹے کی پشت پرکوڑے مارے تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے اس آدمی سے کہا کہ اب عمروبن العاصؓ کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے ؟اس پر اس آدمی نے کہا کہ اے امیرالمومنین !عمروبن العاصؓ نے تو مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا لہٰذا میں انھیں معاف کرتا ہوں ۔اس کے بعد خلیفہ ٔ دوئم عوام کے جم غفیر کے سامنے گورنر مصرحضرت عمروبن العاص ؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا اے عمروبنالعاصؓ تمھیں کیا ہوگیا ؟لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔( ایک جرمنی کی پارسی لڑکی اس واقعہ کی وجہ سے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے سیرت سیدنا عمرؓ پر 7000 انگریزی کی کتب جمع کیں اور ایک انٹرنیشنل لائبریری بنائی اور اس نے ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا جس میں 1000 دنیا کے بڑے دانشوروں نے شرکت کی اس نے مقالہ پیش کیا جسمیں یہ اعتراف کیا گیا کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار سیدنا عمر بن خطابؓ ہے
کیونکہ حضرت عمرؓ نے انسانوں کو تمام بنیادی حقوق دئیے اورآپ ؓ کے ان الفاظ ” اے عمروبن العاصؓ تمھیں کیا ہوگیا ؟لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے حالانکہ ان ماووں نے انھیں آزاد جنا ہے ؟” نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔


اس نادر واقعے کو دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں۔
جزاکم اللہ خیر

بدھ، 8 اپریل، 2020

shab e barat quotes

Shab e Barat ki ibadat Ahadith Ki Roshni men



شبِ برائت

 جن روایات کی روشنی میں *15 شعبان کو دن میں لوگ روزہ رکهتے اور رات کو مخصوص عبادتیں کرتے ہیں* ان سے درج ذيل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

* دن کو روزه رکهنا*

* اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر نزول فرمانا*
* سب کی بخشش سوائے مشرک اور بغض رکهنے والے کے*
 کسی حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت کرنے سے پہلے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وه *حدیث صحیح ہے یا نہيں*، کیونکہ *عمارت کهڑی کرنے سے پہلے بنیاد ڈالنا ضروری ہے*
 ان روايات كے *باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے*، مثلًا: *ابنِ جوزى* رحمہ اللہ نے *الموضوعات* میں، *ابنِ قيم* رحمہ اللہ نے *المنار المنيف* میں، اور *ابنِ تیمیہ* رحمہ اللہ نے *مجموع الفتاوىٰ* ميں ان کا باطل ہونا نقل كيا ہے
* سمجھ نہيں آتا کہ لوگ اس رات کی عبادت کو ثابت کرنے کیلئے *ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لیتے ہیں جبکہ سال کے دوسرے ایام میں یہی فضائل صحیح احاديث سے ثابت ہیں مگر ان کا اہتمام نہيں کرتے، جیسا کہ:


* روزہ رکهنا: سوموار اور جمعرات کا روزہ، ایامِ بیض کے صیام، اور شعبان میں کثرت سے روزہ ركھنا مستحب ہے۔ جہلاء ان کا اہتمام کرنے کی بجائے *15 شعبان کا ایک روزہ رکهنے کیلئے ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا آسمانِ دنيا پر نزول فرمانا

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا کی طرفنزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں قبول کروں، جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے دوں، جو مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اس کی بخشش کروں

 صحيح بخارى: 6321
 پهر ہم روزانہ اس وقت بیدار ہو کراللہ کے بلاوے پر لبیک کیوں نہیں کہتے  اوردعاؤں کا اہتمام کیوں نہيں کرتے
 مشرک اور کینہ رکهنے والے کے سوا اللہ سب کو معاف کر دیتا ہے، اللہ کا یہ انعام و اکرام بهی ہر ہفتے ہوتا ہے۔
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوموار اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو سوائے اس آدمی کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو اور کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں (آخری جملہ تین بار فرمایا)
* صحيح مسلم: 6544*
 ان صحیح احاديث کی روشنی میں ہمیں *روزانہ اللہ کی مغفرت پانے کیلئے کوشاں* رہنا چاہیے، نہ کہ شعبان کے مہینے کا انتظار کریں
 معلوم ہوا کہ خصوصًا 15 شعبان کے دن روزہ رکھنا اور اس کی رات کو قیام و عبادت کیلئے خاص کرنا ۔بدعت ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔
 لہٰذا جو شخص آج سے قبل اس دن کو *صوم کیلئے خاص کر کے روزہ رکھ چکا* اور اسی طرح اس کی *رات کو خاص کر کے عبادت کر چکا*، ضرور *اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے توبہ کرے اور آئندہ ایسی خرافات سے باز رہے*، یقینًا اللہ ۔ہی توفیق دینے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
 والله تعالیٰ اعلم باالثواب

بدھ، 25 مارچ، 2020

Corona Virus and Dua



Corona Virus and ISLAM


فرمانِ نبوی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا:
کیا میں تمہیں تمہاری بیماری اور دوا نہ بتا دوں ؟
سُن لو بیماری تمہارے گناہ ہیں اور تمہاری دوا اِستغفار ہے۔
ترغیب بیہقی:

اتوار، 2 فروری، 2020

Coronavirus and Islam

Corona Virus and Islam

یہ وقت تنقید و تنقیص کر نے کا تو نہیں ھے مگر۔۔۔


اسلامی احکامات کا مذاق اُڑانے والے اور زبردستی مسلم عورتوں کا نقاب اُتار نے والے اب نقاب کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور جب بھی انسان نے فظرت سے معاشرتی طور پر بغاوت کی ہے تو قدرت نے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے چھوٹے یا بڑے عذاب نازل کیے ہیں اور انسان اپنی تمام علمی ترقی کے باوجود قدرت کے سامنے ہاتھ باندھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس دور کا پڑھا لکھا انسان اس بات سے غافل ہو چکا ہے کہ کوئی خالق و مالک بھی ہے اس دنیا کا اور وہ انسانوں کو سدھار نے کے لیے عذاب بھی بھیجتا ہے۔ کبھی بھوک افلاس کی شکل میں عذاب آتے ہیں اور کبھی طوفان و زلزلے آتے ہیں، کبھی انسان جنگ کے عذاب میں نا چاہتے ہوئے پھنس جاتے ہیں اور کبھی وبائی بیماری کا عذاب انسان کو لاچار کر دیتا ہے۔
اس دور کا انسان شیطان کے دھوکے کا اتنا شکار ہو چکا ہے کہ چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے عذاب کا شکار ہوتا رہے کبھی بھی یہ نہیں سوچتا کہ کہیں یہ عذاب اللہ تعالی کی نافرمانی کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟ بلکہ ہر عذاب کی سائینسی وجوہات کو تلاش کرتا رہتا ہے اور وقفے وقفے سے نئے سے نئے عذاب میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ایمان والی زندگی اورایمان والی موت نصیب کرے۔
اگر آپ کو یہ تحریر اچھی لگی ہے تو اپنے عزیزوں دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کرکے صدقہ جاریہ میں حصہ دار بنیں۔
اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔ 

#CoronaVirus

Munafiq ki 3 Nishanian

Munafiq is a person who in public and in community shows that he is a Muslim but rejects Islam or propagate against it either in his heart or among enemies of Islam. The hypocrisy itself is called nifāq (نفاق).

#Munafiq #Monafik #Nifaq #Momin #Anfaq

جمعہ، 19 جولائی، 2019

امریکہ کی اسلام دشمنی اب کھل کر سامنے آرہی ہے

امریکہ کی اسلام دشمنی اب کھل کر سامنے آرہی ہے


عبد الشکور قادیانی عرف چشمے والا ببلشر ہے جو قادیانیوں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام علیہم السلام کے خلاف توہین آمیز کتابیں چھاپتا تھا ۔

2 دسمبر 2015 کو گرفتار کیا گیا اور 5 سال قید بامشقت 6 لاکھ روپے جرمانہ سزا سنائی گئی تقریباً سوا 3 سال بعد رہا کردیا گیا۔

17 جولائی 2019 تقریباً شام 4 بجے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں رہنے والے تمام مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کرتا ہے اس ملاقات میں پاکستان سے سزا یافتہ قادیانی شکور بھی شریک تھا۔

اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف یعنی اس سارے معاملے میں پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے!

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کے تاریخی فیصلے ظہرالدین بنام سرکار(SCMR1718) کی رو سے کوئ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ ہی تبلیغ کرسکتا ہے جبکہ شکور قادیانی مزہب کی تبلیغ کے لیے کتابیں چھاپتا تھا۔

شکور قادیانی امریکی صدر کے سامنے کہتا ہے ہمیں یعنی قادیانیوں کو 1974 میں اقلیت قرار دیا جو کہ ظلم ہے ہماری دوکانیں لوٹ لی گئیں ، گھروں کو آگ لگا دی گئی اور ہم امریکہ میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہلوا سکتے ہیں لیکن پاکستان میں مسلمان نہیں کہلوا سکتے۔

وزیراعظم پاکستان ، آرمی چیف جنرل باجوہ اور چیف جسٹس سے یہ کہنا چاہوں گا ہم سب آئین پاکستان پر یقین رکھتے ہیں ہمارے ختم نبوت کانفرنس کروانے یہاں تک ختم نبوت کا بینرز تک لگانے سے قانون حرکت میں آتا ہے۔

اک قادیانی امریکی صدر کے سامنے پاکستان کی برائیاں اور آئین پاکستان کی دھجیاں اڑاتا نظر آتا ہے اس غدار کی شہریت ختم کرکے کب ملک بدر کیا جائے گا؟

سوشل ایکٹیویٹیس سے گزارش ہے اس تحریر کے الفاظ مستند اور پوری ذمہ داری سے لکھی گئی تحریر ہے اس کو اپنی وال پر لگائیں تاکہ ہماری آواز ایوان بالا تک پہنچے کیونکہ ہم ختم نبوت و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ ہیں۔

اتوار، 14 جولائی، 2019

During Tawaf Amazing Story Of Prophet Muhammad SAWW in urdu

میں بھی اللہ سے حساب مانگوں گا۔۔۔



ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرما رہے تھے ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے ہوئے پایا جس کی زبان پر “یاکریم یاکریم” کی صدا تھی۔ حضور اکرم نے بھی پیچھے سے یاکریم پڑھنا شروع کردیا۔
 وہ اعرابی رُکن یمانی کیطرف جاتا تو پڑھتا یاکریم، پیارے نبی بھی پیچھے سے پڑھتے یاکریم۔ وہ اعرابی جس سمت بھی رخ کرتا اور پڑھتا یاکریم بھی اس کی آواز سے آواز ملاتےہوئے یاکریم پڑھتے۔ اعرابی نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیطرف دیکھا اور کہا کہ اے روشن چہرے والے !اے حسین قد والے ! اللہ کی قسم اگر آپ کا چہرہ اتنا روشن اور عمدہ قد نہ ہوتا تو آپ کی شکایت اپنے محبوب نبی کریم کی بارگاہ میں ضرور کرتا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں. سید دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تو اپنے نبی کو پہچانتا ہے ؟ عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ایمان کیسے لائے؟ عرض کیا: بِن دیکھے ان کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا، مانا اور بغیر ملاقات کے میں نے انکی رسالت کی تصدیق کی۔ آپ نے فرمایا: مبارک ہو، میں دنیا میں تیرا نبی ہوں اور آخرت میں تیری شفاعت کرونگا۔ وہ حضور علیہ السلام کے قدموں میں گرا اور بوسے دینے لگا۔ آپ نے فرمایا: میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کر جو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے مجھے متکبر وجابر بناکر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آئےاور عرض کیا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور فرماتا ہے کہ اس اعرابی کو بتادیں کہ ہم اسکا حساب لیں گے۔ اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اللہ میرا حساب لے گا؟ فرمایا: ہاں، اگر وہ چاہے تو حساب لے گا۔ عرض کیا کہ اگر وہ میرا حساب لے گا تو میں اسکا حساب لونگا۔ آپ نے فرمایا کہ تو کس بات پر اللہ سے حساب لیگا؟ اس نے کہا کہ اگر وہ میرے گناہوں کا حساب لیگا تو میں اسکی بخشش کا حساب لونگا۔ میرے گناہ زیادہ ہیں کہ اسکی بخشش؟ اگر اس نےمیری نافرنیوں کا حساب لیا تو میں اسکی معافی کا حساب لونگا۔ اگر اس نے میرے بخل کا امتحان لیا تو میں اس کے فضل و کرم کا حساب لونگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب سماعت کرنے کے بعد اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر جبرائیل علیہ السلام آئے عرض کیا:
 اے اللہ کے رسول! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ رونا کم کریں آپ کے رونے نے فرشتوں کو تسبیح و تحلیل بھلا دی ہے اپنے امتی کو کہیں نہ وہ ہمارا حساب لے نہ ہم اسکا حساب لیں گے اور اس کو خوشخبری سنادیں یہ جنت میں آپ کا ساتھی ہوگا۔ "کیا عقل نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے" تحریر کو لائک کرنے سے اچھا ہے کہ شیئر کردیں انشاء اللہ تعالی آپکے اکاؤنٹ میں نیکیوں کا وزن زیادہ ہوتا رہے۔
{مسند احمد بن حنبل}


بدھ، 24 اپریل، 2019

اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار​ Parents' role in children's training

Parents' role in children's training۔

اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار



*اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار​ *

اللہ کی بے شمار نعمتوں‛ نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت اولاد اور بچے ہیں ۔ اس نعمت کی قدر ان لوگوں سے معلوم کی جاسکتی ہے جو اس سے محروم ہیں ۔
اولاد اللہ کی امانت ہیں ۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔ آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کر کے اس کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کیا تھا۔(چند اصول برائے تربیت)
 تربیت میں والدین کا کردار

دینی و اسلامی تربیت:

والدین پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین سے واقف کرائے جب ان کی اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائے انھیں نماز کا حکم دیں جیسا کہ ابوداود کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : "جب بچے سات سال کی عمر کو پہنچے تو نماز کا حکم دو اور اگر یہ بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائے اور نماز نہ پڑھے تو انہیں مارو"(حسن:صحیح ابو داود:466)

روزہ:

چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوانے میں کوی حرج نہیں ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں : "چھوٹے بچوں کا روزہ رکھنا جائز ہے اگر چکہ وہ شریعت کے مکلف نہیں ۔( فتح الباری ۔ بحوالہ: اولاد اور والدین کی کتاب)
اخلاقی تربیت:
دس سال کی عمر میں بچوں کو بستر سے الگ کردیا جائے ۔ " جب بچے دس سال کے ہوجائیں اور وہ نماز نہ پڑھے تو انہیں مارو اور ان بچوں کو بستر سے الگ کردو-"(ابو داود)

آداب گفتگو

والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو گفتگو کے آداب سے واقف کرائے اور صحیح انداز گفتگو انہیں سکھلائیں۔
پردہ کا حکم:
جب ہمارے بچیاں بڑی ہوجائیں تو انہیں پردہ کرنے کا سختی سے حکم دیں تاکہ ہماری بچیاں مستقبل میں کامیاب زندگی گزار سکے

جسمانی تربیت

والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا ہر لحاظ سے خیال رکھیں خصوصا صحت کے معاملہ میں ۔
والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو مسواک کرنے ترغیب دلائیں اور اسی طرح کھیل کود پر بھی توجہ دلائیں کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر عمل کرنے سے بچے تندرست رہتے ہیں ۔

اجتماعی و معاشرتی تربیت:-

صلہ رحمی

والدین اپنی اولاد کو صلہ رحمی کے پہلو سے واقف کرائیں
پڑوسیوں کے حقوق سے آگاہی:
اگر والدین اپنے بچوں کو پڑوسیوں کے حقوق سے آگاہ نہ کرائیں تو یہ بچے آگے چل کر فتنہ و فساد کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔
آپ نے پڑوسیوں کے جو حقوق بیان کئے ہیں انہیں اولاد کے سامنے لایا جائے ۔

ایثار و قربانی

والدین اپنے بچوں کو ایثار و قربانی کی تعلیم دیں اور ان کے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کریں۔
جھوٹ :
معاشرہ کے اندر پھیلی ہوی گندی برائیوں سے اپنے بچوں کو رکھا جائے۔
آج کے معاشرہ میں جھوٹ عام ہوچکا ہے لہذا ہم اپنے بچوں کو جھوٹ جیسی عادت سے بچائیں۔

تربیت میں ماں کا کردار

بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود کہلاتا ہے۔ اسی لیے ماں پہلا مدرسہ کہلاتی ہے ۔
ماں کا اکثر وقت گھر میں گزرتا ہے اور ماں اپنے بچے کی دیکھ بھال صحیح طریقہ سے کرسکتی ہے ۔

*خلاصۂ بحث*

اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اس لیے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھیں ‛ ورنہ اولاد کے بگڑنے کے امکانات بہت ہیں ۔
اﷲ تعالی والدین کو اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
تحریر: حافظ عبد الکریم کڑموری

جمعہ، 22 مارچ، 2019

Parda Poshi ki Masnoon Dua

Hifazat aur Parda Poshi k liye Masnoon Dua

حفاظت اور پردہ پوشی کے لیے یہ مسنون دعاء اپنا معمول بنائیں اور دوسروں کو بھی بتا کر صدقہ جاریہ کا ثواب حاصل کریں۔

 جزاکم اللہ خیراً کثیرا۔


Read More




جمعرات، 21 مارچ، 2019

Co education in islamic point of view in urdu

Co education in islam Haram or Halam ?

کیا مخلوط طریقہ تعلیم کی اسلام میں اجازت ہے ؟

اس سوال کا جواب مختلف ءلماء کرام نے واضح طور پر دیا ہے۔
خود بھی سنیں اور دوسروں کو بھی سنائیں۔
جزاک اللہ خیر۔



Is Co Education Forbidden (HARAM) in Islam Dr Zakir Naik





Kya Fiqah-e-Hanafi Galat Hai ? Mufti Tariq Masood

Kya Fiqah-e-Hanafi Galat Hai ? Mufti Tariq Masood


\\

منگل، 19 مارچ، 2019

تعلقات کے خرابی کی ایک بنیادی اور بڑی وجہ غلط فہمی ہے

باہمی تعلقات کے خرابی

باہمی تعلقات کے خرابی کی ایک بنیادی اور بڑی وجہ غلط فہمی ہے۔ معاملے 
کی تحقیق کرنا تو قران پاک کا حکم ہے۔




پیر، 18 مارچ، 2019

صغیرہ اور کبیرہ گناہ کی تفصیلات

صغیرہ اور کبیرہ گناہ کی تفصیلات


صغیرہ اور کبیرہ گناہ
سوال
 ہم گناہوں کے درمیان فرق کیسے کرسکتے ہیں؟مطلب کہ کوئی واضح فرق جس سے پتہ چلے کہ فلاں گناہ چھوٹاہے اور فلاں گناہ بڑاہے،ان کی تعریف کیاہے؟

جواب
’’گناہ ‘‘اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی خلاف ورزی ، احکامات کی عدم تعمیل کانام ہے،اللہ تعالیٰ کی ذات کبریائی کے سامنے توانسان کی ہر غلطی ہی بہت بڑی غلطی اور سنگین جرم ہے،گویاہرگناہ اپنی ذات کے لحاظ سے بڑاگناہ ہے،لیکن قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ میں گناہوں پروعیداور  ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بناپر گناہوں کی دوقسمیں ذکرکی گئی ہیں،صغیرہ اور کبیرہ۔صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی کوئی قطعی تعداد نہیں ، مختلف احادیث کوسامنے رکھتے علماء نے مختلف تعداد ذکر کی ہے۔تعریف کی حد تک جس گناہ پر مجرم کے لیے رحمت سے دوری(لعنت)مذکورہو،وعیدسنائی گئی ہو یاجس پر عذاب وسزایا حدکاذکرہووہ کبائرہیں۔اسی طرح جو  گناہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس گناہ پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، خواہ اس پر وعید، لعنت یا عذاب وسزا وارد نہ ہو۔

تفسیربیان القرآن میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ گناہ کبیرہ کی تعریف میں بہت اقوال ہیں جامع تر قول وہ ہے جس کوروح المعانی میں شیخ الاسلام بارزی سے نقل کیا گیاہے کہ جس گناہ پر کوئی وعید ہو یاحد ہو یا اس پر لعنت آئی ہو یا اس میں مفسدہ کسی ایسے گناہ کے برابر یا زیادہ ہو جس پروعید یاحد یالعنت آئی ہو یاوہ براہ تہاون فی الدین صادر ہو وہ کبیرہ ہے اور اس کا مقابل صغیرہ ہے اور حدیثوں میں جو عددوارد ہے اس سے مقصود حصر نہیں، بلکہ مقتضائے وقت ان ہی کا ذکر ہوگا۔‘‘

نیزمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے تفسیرمعارف القرآن میں مذکورہ مسئلہ پرتفصیلی کلام فرمایاہے ذیل میں وہ نقل کیاجاتاہے:

’’ گناہوں کی دو قسمیں:
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں، کچھ کبیرہ، یعنی بڑے گناہ اور کچھ صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ۔اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص ہمت کر کے کبیرہ گناہوں سے بچ جائے تو اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ان کے صغیرہ گناہوں کو وہ خود معاف فرما دیں گے۔کبیرہ گناہوں سے بچنے میں یہ بھی داخل ہے کہ تمام فرائض و واجبات کو ادا کرے، کیوں کہ فرض و واجب کا ترک کرنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ جو شخص اس کا اہتمام پورا کرے کہ تمام فرائض و واجبات ادا کرے اور تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لے، تو حق تعالی اس کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ کر دیں گے.....

گناہ اور اس کی دو قسمیں صغائر، کبائر:
آیت میں کبائر کا لفظ آیا ہے، اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گناہ کبیرہ کسے کہتے ہیں؟ اور وہ کل کتنے ہیں؟ اور صغیرہ گناہ کی کیا تعریف ہے؟ اور اس کی تعداد کیا ہے؟علماءامت نے اس مسئلہ پر مختلف انداز میں مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔

گناہ کبیرہ اور صغیرہ کی تقسیم اور ان کی تعریفات سے پہلے یہ خوب سمجھ لیجیے کہ مطلق گناہ نام ہے ہر ایسے کام کا جو اللہ تعالی کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو، اسی سے آپ کو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ یعنی چھوٹا کہا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی چھوٹا نہیں اللہ تعالی کی نافرمانی اور اس کی مرضی کی مخالفت ہر حالت میں نہایت سخت و شدید جرم ہے اور اس کی مرضی کی مخالفت کبیرہ ہی ہے،کبیرہ اور صغیرہ کا فرق صرف گناہوں کے باہمی مقابلہ اور موازنہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے ، اسی معنی میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ :"کل مانھی عنہ فھو کبیرة "یعنی جس کام سے شریعت اسلام میں منع کیا گیا ہے وہ سب کبیرہ گناہ ہیں ۔

خلاصہ: یہ ہے کہ جس گناہ کو اصطلاح میں صغیرہ یا چھوٹا کہا جاتا ہے اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں ہیں کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب میں غفلت یا سستی برتی جائے اور ان کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جائے، بلکہ صغیرہ گناہ کو بیباکی اور بے پرواہی کے ساتھ کیا جائے، تو وہ صغیرہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ البتہ گناہوں کے مفاسد اور نتائج بد اور مضر ثمرات کے اعتبار سے ان کے آپس میں فرق ضروری ہے اس فرق کی وجہ سے کسی گناہ کو کبیرہ اور کسی کو صغیرہ کہا جاتا ہے۔

گناہ کبیرہ:
گناہ کبیرہ کی تعریف قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیر میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اور نتائج بدکسی کبیرہ گناہ کے برابریا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ صغیرہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔

ابن عباسؓ کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی تو آپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔

امام ابن حجر مکی نے اپنی کتاب "الزواجر "میں ان تمام گناہوں کی فہرست اور ہر ایک کی مکمل تشریح بیان فرمائی ہے جو مذکور الصدر تعریف کی رو سے کبائر میں داخل ہیں، ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چار سوسٹرسٹھ تک پہنچی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بعض نے بڑے بڑے ابوابِ معصیت کو شمار کرنے پر اکتفا کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے بعض نے ان کی تفصیلات اور انواع و اقسام کو پورا لکھا تو تعداد زیادہ ہوگئی، اس لیے یہ کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات میں بہت سے گناہوں کا کبیرہ ہونا بیان فرمایا اور حالات کی مناسبت سے کہیں تین، کہیں چھ، کہیں سات، کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے ہیں، اسی سے علماءامت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد میں انحصار کرنا مقصود نہیں، بلکہ مواقع اور حالات کے مناسب جتنا سمجھا گیا اتنا بیان کر دیا گیا۔

بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں بھی جو سب سے بڑے ہیں تمہیں ان سے باخبر کرتا ہوں، وہ تین ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ساجھی ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔

اسی طرح بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا کہ :تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ ، حالاں کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ تو فرمایا کہ تم اپنے بچہ کو اس خطرہ سے مار ڈالو کہ یہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا، تمہیں اس کو کھلانا پڑے گا، پھر پوچھاکہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایاکہ: اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرنا، بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور پڑوسی کے اہل و عیال کی حفاظت بھی چوں کہ اپنے اہل و عیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لیے یہ جرم دوگنا ہو گیا۔

صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دے ، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی ماں باپ کو گالی دینے لگے؟ فرمایا کہ ہاں! جو شخص کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے اس کے نتیجہ میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دی ہوں، کیوں کہ یہی ان گالیوں کا سبب بنا ہے۔

اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک اور قتل ناحق اور یتیم کا مال ناجائز طریق پر کھانے اور سود کی آمدنی کھانے اور میدان جہاد سے بھاگنے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بیت اللہ کی بے حرمتی کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔

بعض روایات حدیث میں اس کو بھی کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی شخص دارالکفر سے ہجرت کرنے کے بعد پھر دارالہجرة کو چھوڑ کر دارالکفر میں دوبارہ چلا جائے۔

دوسری روایات حدیث میں ان صورتوں کو بھی گناہ کبیرہ کی فہرست میں داخل کیا گیا ہے، مثلاً: جھوٹی قسم کھانا ، اپنی ضرورت سے زائد پانی کو روک رکھنا  دوسرے ضرورت والوں کو نہ دینا، جادو سیکھنا، جادو کا عمل کرنا اور فرمایا کہ شراب پینا اکبر الکبائر ہے، اور فرمایا کہ شراب پینا ام الفواحش ہے، کیوں کہ شراب میں مست ہو کر آدمی ہر برے سے برا کام کر سکتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ: سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی پر ایسے عیب لگائے جس سے اس کی آبرو ریزی ہوتی ہو۔

ایک حدیث میں ہے جس شخص نے بغیر کسی عذر شرعی کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر دیا تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، مطلب یہ ہے کہ کسی نماز کو اپنے وقت میں نہ پڑھا، بلکہ قضاکر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا۔

بعض روایات حدیث میں ارشاد ہے کہ: اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے عذاب و سزا سے بے فکر و بے خوف ہو جانا بھی کبیرہ گناہ ہے۔

ایک روایات میں ہے کہ :وارث کو نقصان پہنچانے اور اس کا حصہ میراث کم کرنے کے لیے کوئی وصیت کرنا بھی کبائر میں سے ہے۔

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: رسول کریم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خائب و خاسر ہوئے اور تباہ ہو گئے اور تین دفعہ اس کلمہ کو دہرایا حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ محروم القسمتہ اور تباہ و برباد کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا: ایک وہ شخص جو تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند یا کرتہ اور عباء کو ٹخنے سے نیچے لٹکاتا ہے، دوسرے وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے احسان جتلائے ، تیسرے وہ آدمی جو بوڑھا ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہو ، چوتھے وہ آدمی جو بادشاہ یا افسر ہونے کے باوجود جھوٹ بولے، پانچویں وہ آدمی جو عیال دار ہونے کے باوجود تکبر کرے، چھٹے وہ آدمی جو کسی امام کے ہاتھ پر محض دنیا کی خاطر بیعت کرے۔

اور صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ: چغلی کھانے والا جنت میں نہ جائے گا۔

اور نسائی و مسند احمد وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ:چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے: شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا، جنات شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتانے والا، دیوث، یعنی اپنے اہل و عیال کو بے حیائی سے نہ روکنے والا۔

مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ: اللہ تعالی کی لعنت ہے اس شخص پر جو کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی کے لیے قربان کرے۔‘‘

(معارف القرآن، سورہ نساء، آیت:31۔ جلد:2 صفحہ:383 تا 387)فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143805200020

اتوار، 17 مارچ، 2019

The major issue in Pakistan today

 ہماری سوچ اور ترجیحات کی عکاسی


#PSL #ICC #BCC #PAKISTAN
ہمارے مسائل ہیں عدم تحفظ، پسماندگی، جہالت اور ناانصافی۔
مگر افسوس کہ ہماری ترجیحات ہیں کرکٹ، ڈرامے، بالی ووڈ، کوک سٹوڈیو، رنگین محفلیں، کھابے، فلاں کی مچھلی، فلاں کے کباب اور فلاں کی نہاری وغیرہ

The major issue in Pakistan today:


Pakistan is facing several major issues today, including:

  • Economic crisis: Pakistan's economy is in a precarious state, with high inflation, a depreciating currency, and low foreign reserves. This has led to widespread shortages of basic goods and services and has put a strain on the country's finances.
  • Political instability: Pakistan has been plagued by political instability in recent years, with frequent changes in government and a rise in political polarization. This has made it difficult for the government to implement reforms and address the country's economic and social problems.
  • Security challenges: Pakistan faces several security challenges, including terrorism, sectarian violence, and drug trafficking. These challenges hurt the country's economy and social fabric, and make it difficult to attract foreign investment.
  • Poverty and inequality: Pakistan is one of the most impoverished countries in the world, with a high rate of poverty and inequality. This has led to social unrest and has made it difficult for the government to provide basic services to its citizens.
  • Climate change: Pakistan is one of the most vulnerable countries to the effects of climate change, such as floods, droughts, and heat waves. These effects have a devastating impact on the country's economy and environment, and make it difficult for people to live and work.

These are just some of the major issues that Pakistan is facing today. These issues are complex and interconnected, and there is no easy solution to any of them. However, it is important to start addressing these issues now, to build a more prosperous and stable future for Pakistan.


بدھ، 6 مارچ، 2019

جب گناہ کا احساس ہو جائے

حضرت عبداللہ بِن عمر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ

جب کسی بندے کو اپنا گناہ یاد کر کے دُکھ ہو اور اس کا دل ڈر جائے تو بس اسی وقت اس کا وہ گناہ اس کے نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے۔
{موجب دار السلام}

صدقہ جاریہ کی نیت سے اس تحریر کو عزیز دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔
جزاکم اللہ خیر
#Gunah #Sadqah #Taqwa 

ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فقہی مقام

ابن عمرسلمانوں کے امام اور مشہور فقہا میں سے تھے۔ بے حد محتاط تھے اور فتویٰ میں اپنے نفس کی خواہشات کے مقابلہ میں اپنے دین کی زیادہ حفاظت کرنے والے تھے۔ باوجود یہ کہ اہل شام ان کی طرف مائل تھے اور ان سے اہل شام کو محبت تھی۔ انہوں نے خلافت کے لیے جنگ چھوڑ دی اور فتنوں کے زمانہ میں کسی مقابلہ میں جنگ نہیں کی۔ حضرت علیؓ کی مشکلات کے زمانہ میں بھی علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کی۔ اگرچہ اس کے بعد وہ حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے تھے۔ جابر بن عبداللہ کہا کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی طرف دنیا مائل نہ ہوئی ہو اور وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوا ہو، بجز عبد اللہ بن عمرکے۔
 آپ سے اکثر تابعین نے روایت کی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ آپ سے روایت کرنے والے صاحبزادے سالم اور ان کے مولیٰ نافع تھے۔ شعبی فرماتے ہیں ہ ابن عمر حدیث میں جید تھے اور فقہ میں بھی جید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد 60 سال زندہ رہے۔ موسم حج وغیرہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔

ہفتہ، 2 مارچ، 2019

Pak War At Home Today

Pak War @ Your Home


بھارت کے ساتھ جنگ جیتنے کے لیے ہمیں بھارتی ہندوانہ رسم و رواج، ہندوانہ تواہمات اور ہندوستانی میڈیا کا بائکاٹ کرنا پڑے گا ورنہ ہم قربانیاں تو دے سکتے ہیں مگر کبھی جنگ نہیں جیت سکیں گے۔
اگر آپ اس بات سے متفق ہیں تو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔

بدھ، 27 فروری، 2019

Pak Bharat War Today

Pak Bharat @ War Today


پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مسلسل جنگ جاری ہے اور ہر وقت اس چیز کا خطرہ رہتا ہے کہ گھمسان کی جنگ شروع ہو جائے کی کسی بھی وقت۔
دفاعی جنگ میں شرکت اور فوج کے ساتھ تعاون اور باہمی امدادی کاموں میں حصہ لینا بہت بڑی نیکی اور ہماری اخلاقی ذمہداری ہے مگر یاد رہے کہ جنگ شروع کرنے کی تمنا یا خواہش کرنا گناہ ہے۔

جمعہ، 22 فروری، 2019

Masnavi-I Ma'navi - Teachings of Rumi

Masnavi-I Ma'navi - Teachings of Rumi

E-Book Free Download Pdf
Maulana Jalalu-'d-din Muhammad Rumi 
MAULANA JALALU-'D-DlN MUHAMMAD RUMI. Book In PDF


Masnavi-I Ma'navi - Teachings of RumiE-Book Free Download


منگل، 27 نومبر، 2018

Wearing a Taweez (Amulet) in Islam?

Taweez [ Amulet ] In ISLAM


Amulet Meaning
an ornament or small piece of jewelry thought to give protection against evil, danger, or disease.
Cameos and intaglios were often mounted as rings, worn as amulets or brooches, and sometimes even mounted on elaborate Gospel book covers or reliquaries.

synonyms: lucky charmcharmtalismanmojochuringa,