حضرت عبداللہ بِن عمر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ
جب کسی بندے کو اپنا گناہ یاد کر کے دُکھ ہو اور اس کا دل ڈر جائے تو بس اسی وقت اس کا وہ گناہ اس کے نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے۔
{موجب دار السلام}
صدقہ جاریہ کی نیت سے اس تحریر کو عزیز دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔
جزاکم اللہ خیر
#Gunah #Sadqah #Taqwa
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فقہی مقام
ابن عمرسلمانوں کے امام اور مشہور فقہا میں سے تھے۔ بے حد محتاط تھے اور فتویٰ میں اپنے نفس کی خواہشات کے مقابلہ میں اپنے دین کی زیادہ حفاظت کرنے والے تھے۔ باوجود یہ کہ اہل شام ان کی طرف مائل تھے اور ان سے اہل شام کو محبت تھی۔ انہوں نے خلافت کے لیے جنگ چھوڑ دی اور فتنوں کے زمانہ میں کسی مقابلہ میں جنگ نہیں کی۔ حضرت علیؓ کی مشکلات کے زمانہ میں بھی علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کی۔ اگرچہ اس کے بعد وہ حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے تھے۔ جابر بن عبداللہ کہا کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی طرف دنیا مائل نہ ہوئی ہو اور وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوا ہو، بجز عبد اللہ بن عمرکے۔
آپ سے اکثر تابعین نے روایت کی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ آپ سے روایت کرنے والے صاحبزادے سالم اور ان کے مولیٰ نافع تھے۔ شعبی فرماتے ہیں ہ ابن عمر حدیث میں جید تھے اور فقہ میں بھی جید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد 60 سال زندہ رہے۔ موسم حج وغیرہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔
آپ سے اکثر تابعین نے روایت کی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ آپ سے روایت کرنے والے صاحبزادے سالم اور ان کے مولیٰ نافع تھے۔ شعبی فرماتے ہیں ہ ابن عمر حدیث میں جید تھے اور فقہ میں بھی جید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد 60 سال زندہ رہے۔ موسم حج وغیرہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں