بدھ، 23 اکتوبر، 2019

کشمیر بنے گا پاکستان مگر کس طرح ؟

کشمیر بنے گا پاکستان مگر کس طرح ؟



کشمیری عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں اورپاکستانی عوام کے دل بھی ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں اوریہی محبت ہمارے ازلی دشمن بھارت کو انتہائی ناگوار گزرتی ہے اور قیام پاکستان سے آج تک پاک بھارت تنازعے کی اہم ترین وجہ بھی یہی ہے۔اس بارعید الاضحی اورچودہ اگست پردل بہت اداس تھا بچوں کو اپنے بکروں کی جدائی کا غم تھا اور ہمیں کشمیرمیں بھارت کے قبضے کا اور اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا۔ لیکن پاکستانی غیورعوام نے اس بار یوم آزادی پرپہلی بارپاکستانی اورکشمیری پرچم ایک ساتھ لہرائے اوراس یوم آزادی کو  کے ساتھ منسوب کر کے یہ ثابت کردیا کہ کشمیر واقعی پاکستان کی شہ رگ ہے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں جوخون بہا وہ یوں ہی رائیگاں نہیں جا سکتا۔اللہ بہت بے نیاز ہے وہ دلوں کا بھید جانتا ہے دشمن جتنی مرضی چالیں چلتا رہے لیکن میرے اللہ کا ایک بس ایک کن ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔



کہنے والے تو بہت کچھ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا سودا ہوگیا مگر دل ہے کہ مانتا نہیں
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ گزشتہ ستر دہائیوں سے حل نہیں ہو پارہا اور میری عوام کی دلی خواہش کو نظر انداز کرکے بھارت مسلسل اس کے اندرونی معاملات میں نہ صرف دخل انداز ہوتا آرہا ہے بلکہ اس کے معصوم عوام اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہتے ہیں جو کہ ایک معمول کی بات ہے مگر افسوس ہے ان تمام نام نہاد عالمی حقوق کی تنظیمیوں پرکہ جنہیں بھارت کی یہ بد معاشی نظر نہیں آتی بلکہ وہ اس معاملے میں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔پاکستان کی جانب سے بھی تنازعے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ ہرحکومت صرف پالیسی بیان ہی جاری کرتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ لیکن پانچ اگست کی صبح بھارت کا یہ اعلان کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اسے دو ٹکڑے کر کے بھارت کا حصہ بنا رہا ہے۔ کشمیری عوام اور پاکستانی عوام دونوں کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ کیونکہ ابھی چند روز پہلے ہی تو وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے اس تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ تو کیا چونکہ ٹرمپ کو پتہ تھا کہ مودی کیا کرنے جا رہا اور اس نے ثالثی کی پیشکش بھارتی موقف کوسامنے رکھ کر کی تھی۔ تو پھر ہم کس بات کی خوشیاں منا رہے تھے؟ کیا صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا مطلب یہ تھا کہ کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے اور پاکستان خاموش رہے؟
کیا پاکستان امریکی چال سمجھ نہ سکا یا سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا؟
کیونکہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد امریکہ نے تو اسے بھارت کا اندرونی معاملہ کہہ کر جان چھڑا لی باقی ممالک نے بھی کوئی خاص رد عمل نہیں دیا سوائے ترکی اور ایران کے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی خاموش یہاں تک کہ خطبہ حج میں بھی مظلوم کشمیریوں سمیت ظلم کا شکارمسلمانوں کے لیے دو جملے بھی نہ کہے گئے۔
اس کڑے وقت میں جب کشمیری پاکستان کی جانب نظریں لگائے بیٹھے ہیں اور تمام حریت رہنما یا تو جیل میں ہیں یا نظر بند۔عوام پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ توایسے میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کارروائی ان کی لیے مزید مایوسی کا سبب بنی ہوگی۔ ان کو پاکستانی پارلیمنٹ سے مشترکہ قومی بیانیے کی ضرورت تھی لیکن پاکستانی سیاستدانوں نے مشترکہ اجلاس کوسیاسی مخالفت کی نذر کر دیا۔ تاریخ کے اس دوراہے پرجب کچھ کر گزرنے کا موقع تھا ہم ایک دوسرے کوآئینہ دکھا رہے تھیاورایسا کرنے والوں کوان کا ضمیر ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا ۔
یوم آزادی پر استاد جی پوری گلی سجایا کرتے تھے اس بار انہوں نے خصوصی طور پر کشمیری پرچم بھی لگوائے اور روز ہر نماز میں مسجد میں کشمیریوں کے لیے خصوصی دعا بھی کرواتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ سب کو ایسا لگتا ہے جیسے کشمیر کا سودا ہوگیا اور وہ ہمارے ہاتھ سے گیا تو پہلے تو مسکرائے پھر آنکھ سے دو آنسو ٹپکے ان کی آواز رندھ گئی بولے بچہ جی!
کشمیر اب بھی ہمارا ہے، سارے کا سارا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: