پیر، 18 مارچ، 2019

صغیرہ اور کبیرہ گناہ کی تفصیلات

صغیرہ اور کبیرہ گناہ کی تفصیلات


صغیرہ اور کبیرہ گناہ
سوال
 ہم گناہوں کے درمیان فرق کیسے کرسکتے ہیں؟مطلب کہ کوئی واضح فرق جس سے پتہ چلے کہ فلاں گناہ چھوٹاہے اور فلاں گناہ بڑاہے،ان کی تعریف کیاہے؟

جواب
’’گناہ ‘‘اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی خلاف ورزی ، احکامات کی عدم تعمیل کانام ہے،اللہ تعالیٰ کی ذات کبریائی کے سامنے توانسان کی ہر غلطی ہی بہت بڑی غلطی اور سنگین جرم ہے،گویاہرگناہ اپنی ذات کے لحاظ سے بڑاگناہ ہے،لیکن قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ میں گناہوں پروعیداور  ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بناپر گناہوں کی دوقسمیں ذکرکی گئی ہیں،صغیرہ اور کبیرہ۔صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی کوئی قطعی تعداد نہیں ، مختلف احادیث کوسامنے رکھتے علماء نے مختلف تعداد ذکر کی ہے۔تعریف کی حد تک جس گناہ پر مجرم کے لیے رحمت سے دوری(لعنت)مذکورہو،وعیدسنائی گئی ہو یاجس پر عذاب وسزایا حدکاذکرہووہ کبائرہیں۔اسی طرح جو  گناہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس گناہ پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، خواہ اس پر وعید، لعنت یا عذاب وسزا وارد نہ ہو۔

تفسیربیان القرآن میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ گناہ کبیرہ کی تعریف میں بہت اقوال ہیں جامع تر قول وہ ہے جس کوروح المعانی میں شیخ الاسلام بارزی سے نقل کیا گیاہے کہ جس گناہ پر کوئی وعید ہو یاحد ہو یا اس پر لعنت آئی ہو یا اس میں مفسدہ کسی ایسے گناہ کے برابر یا زیادہ ہو جس پروعید یاحد یالعنت آئی ہو یاوہ براہ تہاون فی الدین صادر ہو وہ کبیرہ ہے اور اس کا مقابل صغیرہ ہے اور حدیثوں میں جو عددوارد ہے اس سے مقصود حصر نہیں، بلکہ مقتضائے وقت ان ہی کا ذکر ہوگا۔‘‘

نیزمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے تفسیرمعارف القرآن میں مذکورہ مسئلہ پرتفصیلی کلام فرمایاہے ذیل میں وہ نقل کیاجاتاہے:

’’ گناہوں کی دو قسمیں:
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں، کچھ کبیرہ، یعنی بڑے گناہ اور کچھ صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ۔اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص ہمت کر کے کبیرہ گناہوں سے بچ جائے تو اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ان کے صغیرہ گناہوں کو وہ خود معاف فرما دیں گے۔کبیرہ گناہوں سے بچنے میں یہ بھی داخل ہے کہ تمام فرائض و واجبات کو ادا کرے، کیوں کہ فرض و واجب کا ترک کرنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ جو شخص اس کا اہتمام پورا کرے کہ تمام فرائض و واجبات ادا کرے اور تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لے، تو حق تعالی اس کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ کر دیں گے.....

گناہ اور اس کی دو قسمیں صغائر، کبائر:
آیت میں کبائر کا لفظ آیا ہے، اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گناہ کبیرہ کسے کہتے ہیں؟ اور وہ کل کتنے ہیں؟ اور صغیرہ گناہ کی کیا تعریف ہے؟ اور اس کی تعداد کیا ہے؟علماءامت نے اس مسئلہ پر مختلف انداز میں مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔

گناہ کبیرہ اور صغیرہ کی تقسیم اور ان کی تعریفات سے پہلے یہ خوب سمجھ لیجیے کہ مطلق گناہ نام ہے ہر ایسے کام کا جو اللہ تعالی کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو، اسی سے آپ کو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ یعنی چھوٹا کہا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی چھوٹا نہیں اللہ تعالی کی نافرمانی اور اس کی مرضی کی مخالفت ہر حالت میں نہایت سخت و شدید جرم ہے اور اس کی مرضی کی مخالفت کبیرہ ہی ہے،کبیرہ اور صغیرہ کا فرق صرف گناہوں کے باہمی مقابلہ اور موازنہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے ، اسی معنی میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ :"کل مانھی عنہ فھو کبیرة "یعنی جس کام سے شریعت اسلام میں منع کیا گیا ہے وہ سب کبیرہ گناہ ہیں ۔

خلاصہ: یہ ہے کہ جس گناہ کو اصطلاح میں صغیرہ یا چھوٹا کہا جاتا ہے اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں ہیں کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب میں غفلت یا سستی برتی جائے اور ان کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جائے، بلکہ صغیرہ گناہ کو بیباکی اور بے پرواہی کے ساتھ کیا جائے، تو وہ صغیرہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ البتہ گناہوں کے مفاسد اور نتائج بد اور مضر ثمرات کے اعتبار سے ان کے آپس میں فرق ضروری ہے اس فرق کی وجہ سے کسی گناہ کو کبیرہ اور کسی کو صغیرہ کہا جاتا ہے۔

گناہ کبیرہ:
گناہ کبیرہ کی تعریف قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیر میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اور نتائج بدکسی کبیرہ گناہ کے برابریا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ صغیرہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔

ابن عباسؓ کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی تو آپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔

امام ابن حجر مکی نے اپنی کتاب "الزواجر "میں ان تمام گناہوں کی فہرست اور ہر ایک کی مکمل تشریح بیان فرمائی ہے جو مذکور الصدر تعریف کی رو سے کبائر میں داخل ہیں، ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چار سوسٹرسٹھ تک پہنچی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بعض نے بڑے بڑے ابوابِ معصیت کو شمار کرنے پر اکتفا کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے بعض نے ان کی تفصیلات اور انواع و اقسام کو پورا لکھا تو تعداد زیادہ ہوگئی، اس لیے یہ کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات میں بہت سے گناہوں کا کبیرہ ہونا بیان فرمایا اور حالات کی مناسبت سے کہیں تین، کہیں چھ، کہیں سات، کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے ہیں، اسی سے علماءامت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد میں انحصار کرنا مقصود نہیں، بلکہ مواقع اور حالات کے مناسب جتنا سمجھا گیا اتنا بیان کر دیا گیا۔

بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں بھی جو سب سے بڑے ہیں تمہیں ان سے باخبر کرتا ہوں، وہ تین ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ساجھی ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔

اسی طرح بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا کہ :تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ ، حالاں کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ تو فرمایا کہ تم اپنے بچہ کو اس خطرہ سے مار ڈالو کہ یہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا، تمہیں اس کو کھلانا پڑے گا، پھر پوچھاکہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایاکہ: اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرنا، بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور پڑوسی کے اہل و عیال کی حفاظت بھی چوں کہ اپنے اہل و عیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لیے یہ جرم دوگنا ہو گیا۔

صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دے ، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی ماں باپ کو گالی دینے لگے؟ فرمایا کہ ہاں! جو شخص کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے اس کے نتیجہ میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دی ہوں، کیوں کہ یہی ان گالیوں کا سبب بنا ہے۔

اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک اور قتل ناحق اور یتیم کا مال ناجائز طریق پر کھانے اور سود کی آمدنی کھانے اور میدان جہاد سے بھاگنے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بیت اللہ کی بے حرمتی کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔

بعض روایات حدیث میں اس کو بھی کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی شخص دارالکفر سے ہجرت کرنے کے بعد پھر دارالہجرة کو چھوڑ کر دارالکفر میں دوبارہ چلا جائے۔

دوسری روایات حدیث میں ان صورتوں کو بھی گناہ کبیرہ کی فہرست میں داخل کیا گیا ہے، مثلاً: جھوٹی قسم کھانا ، اپنی ضرورت سے زائد پانی کو روک رکھنا  دوسرے ضرورت والوں کو نہ دینا، جادو سیکھنا، جادو کا عمل کرنا اور فرمایا کہ شراب پینا اکبر الکبائر ہے، اور فرمایا کہ شراب پینا ام الفواحش ہے، کیوں کہ شراب میں مست ہو کر آدمی ہر برے سے برا کام کر سکتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ: سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی پر ایسے عیب لگائے جس سے اس کی آبرو ریزی ہوتی ہو۔

ایک حدیث میں ہے جس شخص نے بغیر کسی عذر شرعی کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر دیا تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، مطلب یہ ہے کہ کسی نماز کو اپنے وقت میں نہ پڑھا، بلکہ قضاکر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا۔

بعض روایات حدیث میں ارشاد ہے کہ: اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے عذاب و سزا سے بے فکر و بے خوف ہو جانا بھی کبیرہ گناہ ہے۔

ایک روایات میں ہے کہ :وارث کو نقصان پہنچانے اور اس کا حصہ میراث کم کرنے کے لیے کوئی وصیت کرنا بھی کبائر میں سے ہے۔

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: رسول کریم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خائب و خاسر ہوئے اور تباہ ہو گئے اور تین دفعہ اس کلمہ کو دہرایا حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ محروم القسمتہ اور تباہ و برباد کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا: ایک وہ شخص جو تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند یا کرتہ اور عباء کو ٹخنے سے نیچے لٹکاتا ہے، دوسرے وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے احسان جتلائے ، تیسرے وہ آدمی جو بوڑھا ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہو ، چوتھے وہ آدمی جو بادشاہ یا افسر ہونے کے باوجود جھوٹ بولے، پانچویں وہ آدمی جو عیال دار ہونے کے باوجود تکبر کرے، چھٹے وہ آدمی جو کسی امام کے ہاتھ پر محض دنیا کی خاطر بیعت کرے۔

اور صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ: چغلی کھانے والا جنت میں نہ جائے گا۔

اور نسائی و مسند احمد وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ:چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے: شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا، جنات شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتانے والا، دیوث، یعنی اپنے اہل و عیال کو بے حیائی سے نہ روکنے والا۔

مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ: اللہ تعالی کی لعنت ہے اس شخص پر جو کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی کے لیے قربان کرے۔‘‘

(معارف القرآن، سورہ نساء، آیت:31۔ جلد:2 صفحہ:383 تا 387)فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143805200020

Chelsea Clinton blamed by student for Christchurch attack

چیلسی کلنٹن کو تعزیتی تقریب میں شرکت مہنگی پڑگئی۔




اتوار، 17 مارچ، 2019

The major issue in Pakistan today

 ہماری سوچ اور ترجیحات کی عکاسی


#PSL #ICC #BCC #PAKISTAN
ہمارے مسائل ہیں عدم تحفظ، پسماندگی، جہالت اور ناانصافی۔
مگر افسوس کہ ہماری ترجیحات ہیں کرکٹ، ڈرامے، بالی ووڈ، کوک سٹوڈیو، رنگین محفلیں، کھابے، فلاں کی مچھلی، فلاں کے کباب اور فلاں کی نہاری وغیرہ

The major issue in Pakistan today:


Pakistan is facing several major issues today, including:

  • Economic crisis: Pakistan's economy is in a precarious state, with high inflation, a depreciating currency, and low foreign reserves. This has led to widespread shortages of basic goods and services and has put a strain on the country's finances.
  • Political instability: Pakistan has been plagued by political instability in recent years, with frequent changes in government and a rise in political polarization. This has made it difficult for the government to implement reforms and address the country's economic and social problems.
  • Security challenges: Pakistan faces several security challenges, including terrorism, sectarian violence, and drug trafficking. These challenges hurt the country's economy and social fabric, and make it difficult to attract foreign investment.
  • Poverty and inequality: Pakistan is one of the most impoverished countries in the world, with a high rate of poverty and inequality. This has led to social unrest and has made it difficult for the government to provide basic services to its citizens.
  • Climate change: Pakistan is one of the most vulnerable countries to the effects of climate change, such as floods, droughts, and heat waves. These effects have a devastating impact on the country's economy and environment, and make it difficult for people to live and work.

These are just some of the major issues that Pakistan is facing today. These issues are complex and interconnected, and there is no easy solution to any of them. However, it is important to start addressing these issues now, to build a more prosperous and stable future for Pakistan.


اتوار، 10 مارچ، 2019

Fat Cutter Drink For Weight Loss

What To Drink To Lose Weight Overnight ?

Best Weight Loss Drink Make Easy


High-Protein Chia Seeds Drink


پروٹین سے بھرپور مشروب موٹاپے کا توڑ

یہ سادہ اور سستا مشروب بہت تیزی سے چربی کو قدرتی سے کم کرتا ہے۔
اگر آپ جسمانی وزن اور توند سے نجات چاہتے ہیں تو کچن میں موجود 3 چیزوں سے بننے والا مزیدار مشروب اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

یقیناً توند سے نجات آسان نہیں مگر یہ مشروب بہت تیزی سے چربی گھلانے میں مدد دیتا ہے۔

یقیناً یہ کام راتوں رات تو نہیں ہوسکتا، اس کے لیے اپنی غذا پر نظر رکھنے کے ساتھ ورزش کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر چند غذائی عادات طویل المعیاد بنیادوں پر موٹاپے کو دور رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

اگر آپ توند سے نجات چاہتے ہیں تو اس کے لیے پروٹین کی اہمیت جاننا ضروری ہوتا ہے۔

پروٹین ایسا جز ہے جو پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرے رکھنے میں مدد دیتا ہے جس سے بے وقت منہ چلانے کی خواہش پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔

پروٹین سے بھرپور مشروب روزانہ پینا توند کی چربی گھلانے کی رفتار کو تیز کرسکتا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اس کے لیے اجزا لگ بھگ ہر کچن میں ہی موجود ہوتے ہیں۔

مشروب کے اجزا یہ ہیں:
تخ ملنگا
لیموں
شہد

: مشروب بنا نے کا طریقہ

تخ ملنگا/تخم بلنگوکے فوائد بتانے کی ضرورت نہیں جو نظام ہاضمہ بہتر کرتا ہے اور اچھا نظام ہاضمہ موٹاپے سے نجات کے لیے موثر ہتھیار ثابت ہوتا ہے، اسی طرح اس میں موجود فائبر آنتوں کے افعال بہتر کرتا ہے جبکہ بلڈشوگر لیول کو بھی مستحکم کرتا ہے۔

اس مشروب کو بنانے کے لیے آدھا چائے کا چمچ تخ ملنگا، ایک یا ڈیڑھ کپ پانی، ایک چائے کا چمچ شہد اور ایک چائے کا چمچ لیموں کا رس لیں۔

سب سے پہلے ایک برتن میں پانی ڈالیں اور پھر اس میں تخ ملنگا کا اضافہ کرکے اسے 30 سے 45 منٹ کے لیے ایک طرف رکھ دیں، جس دوران تخ ملنگا کے بیج جیل جیسےلیسدار ہوجائیں گے۔

اس کے بعد شہد اور لیموں کے رس کا اضافہ کرکے ان اجزا کو اچھی طرح مکس کریں اور پھر اس میں تھوڑا سا پانی مزید ڈال لیں اور پھر اس کو پی لیں۔

نوٹ: اس مشروب کے اپنے تو کوئی نقصان دہ اثرات نہیں ہیں البتہ اگر آپ کو عام موٹاپا کے علاوہ بھی کوئی جسمانی عارضہ ہے تو قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کرلیں۔

اگر آپ دوسروں کے ساتھ بھی یہ مضمون شیئر کریں گے تو یہ آپ کی طرف سے
 صدقہ جاریہ ہو گا۔

  • weight loss drinks
  • easy weight loss drinks
  • healthy weight loss drinks
  • natural weight loss drinks
  • home remedies for weight loss
  • drinks that burn fat
  • drinks that boost metabolism
  • drinks that suppress appetite
  • drinks that detoxify the body
  • drinks that hydrate the body
  • drinks that are good for digestion
  • drinks that are good for overall health

جمعرات، 7 مارچ، 2019

بدھ، 6 مارچ، 2019

جب گناہ کا احساس ہو جائے

حضرت عبداللہ بِن عمر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ

جب کسی بندے کو اپنا گناہ یاد کر کے دُکھ ہو اور اس کا دل ڈر جائے تو بس اسی وقت اس کا وہ گناہ اس کے نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے۔
{موجب دار السلام}

صدقہ جاریہ کی نیت سے اس تحریر کو عزیز دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔
جزاکم اللہ خیر
#Gunah #Sadqah #Taqwa 

ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فقہی مقام

ابن عمرسلمانوں کے امام اور مشہور فقہا میں سے تھے۔ بے حد محتاط تھے اور فتویٰ میں اپنے نفس کی خواہشات کے مقابلہ میں اپنے دین کی زیادہ حفاظت کرنے والے تھے۔ باوجود یہ کہ اہل شام ان کی طرف مائل تھے اور ان سے اہل شام کو محبت تھی۔ انہوں نے خلافت کے لیے جنگ چھوڑ دی اور فتنوں کے زمانہ میں کسی مقابلہ میں جنگ نہیں کی۔ حضرت علیؓ کی مشکلات کے زمانہ میں بھی علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کی۔ اگرچہ اس کے بعد وہ حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے تھے۔ جابر بن عبداللہ کہا کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی طرف دنیا مائل نہ ہوئی ہو اور وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوا ہو، بجز عبد اللہ بن عمرکے۔
 آپ سے اکثر تابعین نے روایت کی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ آپ سے روایت کرنے والے صاحبزادے سالم اور ان کے مولیٰ نافع تھے۔ شعبی فرماتے ہیں ہ ابن عمر حدیث میں جید تھے اور فقہ میں بھی جید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد 60 سال زندہ رہے۔ موسم حج وغیرہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔