جمعہ، 1 جولائی، 2022

Dirty Politics Of PTI


 جنرل باجواہ ایک سرکاری ملازم ہے اور اس کی مدت ملازمت بڑھانے والے کون تھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں  اور اس وقت اس جرنیل کی مدت ملازمت میں توسیع پر جو جو سوالات اُٹھے تھے اور ان کے جو جوابات دیے گیے وہ بھی سب جانتے ہیں۔ آب جنہوں نے بھی جنرل باجواہ کو گھر بھجوانے کے لیے احتجاجی مظاہروں کی کال دی ہے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی ذہنی حالت کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ان کے مقاصد کا ساتھ دے وہ ان کا دوست اور جب وہ سرپرستی چھوڑ دے پھر ایسے لوگ اس کے جانی دشمن بن جاتے ہیں اور یہی خان کر رہا ہے خان کی توپوں کا رُخ اب ایک ادارے کی طرف مُڑ گیا ہے کیونکہ اس ادارے کے سربراہ کو جب خان نے درخواست کی کہ میرے اقتدار کو خطرہ درپیش ہے اسلیے آپ اسے بچانے کے لیے کچھ کریں جس پر جنرل باجواہ نے جواب دیا کہ آپ لوگ خود کب اپنے فیصلے کریں گے۔ اب ہمارا ادارہ نیوٹرل رہے گا اسہی وقت خان انتقامی کارروائیوں پر اتر آیا کبھی کہا نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں کبھی کہا اسلام نیوٹرل رہنے کا حکم نہیں دیتا اور جب دیکھا کہ یہ حربے ناکام ہیں تو پھر اسنے باجواہ کو گھر بھیجنے اور نیا کمانڈر ان چیف مقرر کرنے کی کوشش کی جس سے ادارے کی سالمیت ہی خطرے میں پڑ جاتی یہاں بھی ادارے کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ادارے کے اپنے بناۓ ہوے قانون کام آے اور ادارہ انتشار سے بج گیا ورنہ خان کا مقصد تو یہ تھا کہ اگر میں نہ کھیل سکا تو کھلونا ہی توڑ دوں گا کسی کو کھیلنے نہیں دوں گا یہ ہے اس وقت خان کی ذہنی حالت یہ ہے وہ شخص جو اپنے آپ کو جمہوریت کا عَلمبردار اور مینار جس سے لوگ پاکستان کے مستقبل کی امیدیں لگاۓ بیٹھے ہیں۔ جو اس خان کو انگلی پکڑ کر اقتدار میں لاۓ یہ انہی کا دشمن بن گیا کیونکہ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ آب ہم نیوٹرل رہیں گے۔ اور یہ پاکستانی جو اپنے ایک ادارے کے خلاف مظاہرہ اور احتجاج کرنے پاکستان ایمبیسی لندن جارہے ہیں کیا واقع ہی پاکستان کے ہمدرد ہیں محب وطن پاکستانی ہیں یا یہ صرف اپنی پارٹی اور ارض پاکستان کا تماشا بنانا چاہتے ہیں  ان کی ایسے اقدام سے پاکستان کا مستقبل ہی داؤ پر لگ سکتا ہے۔ جو لوگ اپنے نیوکلئیر تک پر سوال اٹھا دیں کہ انہیں چیک کر لیں کہیں یہ نیوکلئیر بھی تو نیوٹرل نہیں ہو گیے ایسے لوگوں سے کچھ بھی بعید نہیں یہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے مشرق میں بسنے والے ہندو ہمساۓ کو دیکھ لو جو حشر وہ مسلمانوں کا کر رہا ہے اسے اگر ڈر ہے تو صرف اس مضبوط ادارے کا ورنہ وہ کب کا آپکی سرحدوں کے تقدس کو پامال کر چکا ہوتا۔ ہندو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں تیسرے درجے کا شہری بھی ماننے کو تیار نہیں اگر خدا نخواستہ یہ ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو تمہارا حشر مشرقی ہمساۓ میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی بُرا ہو گا کیونکہ اس وقت تک ایک مظبوط ادارہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کر رہا ہے  اور آپکا ہمسایہ اس ادارے سے خوف زدہ ہے اور جب تمہارے ہمساۓ کو معلوم ہو گیا کہ یہ ادارہ انتشار کا شکار ہو گیا ہے تو پھر وہ تم کو اٹھا کر بحر ہند میں غرق کردے گا اس لیے ہوش کے نا خون لو اپنے اداروں کے خلاف نہ ہوجاؤ بلکہ ان کی پشت پر کھڑے رہو تاکہ وہ تمہاری سرحدوں کی حفاظت اطمینان سے کریں۔