عربی زبان میں لفظ "ملک" [فرشتہ] کا مادہ کیا ہے؟
عربی زبان میں الفاظ کی تشکیل اور ان کی صرفی حیثیت کو سمجھنا ایک گہرا علم ہے جسے "علم الصرف والنحو" کہا جاتا ہے۔ "ا ل ک" سے مَلَک (Malak) بننے کا عمل صرفی قواعد کے تحت آتا ہے، اور اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
"بنیادی مادہ "ا ل ک" (Alif-Lam-Kaf) اور اس سے الفاظ کی تشکیل
عربی زبان میں اکثر الفاظ تین حروف اصلی (جذر) سے بنتے ہیں، جنہیں "مادہ" کہا جاتا ہے۔ "ا ل ک" (أ ل ك) ایسا ہی ایک مادہ ہے جس کا بنیادی مفہوم "پیغام پہنچانا" یا "بھیجنا" ہے۔ اس مادہ سے مختلف اوزان (patterns) پر الفاظ ڈھالے جاتے ہیں، اور ہر وزن (وزن) کے ساتھ معنی میں ایک خاصیت یا تبدیلی آ جاتی ہے۔
"مَلَک" کی تشکیل (صرفی پہلو)
لفظ مَلَک (فرشتہ) کو سمجھنے کے لیے ہمیں "فعل" کے مختلف اوزان اور پھر "اسم" کے اوزان کو دیکھنا ہوگا۔
فعل سے اشتقاق:
"ا ل ک" سے فعل کا جو وزن بنتا ہے وہ "أَلَكَ" (َأَ لَ كَ) ہے، جس کا مطلب ہے "اس نے پیغام پہنچایا" یا "اس نے بھیجا"۔ یہ فعل ثلاثی مجرد (تین حرفی فعل) کے "فَعَلَ" (Fa'ala) وزن پر ہے۔
"مَلَک" (Malak) کا وزن:مَلَک (مَ لَ ك) کا وزن عربی صرف میں "فَعَلٌ" (Fa'alun) ہے۔ یہ ایک اسم فاعل (فاعل کا اسم - یعنی کرنے والا) کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ "صفت مشبہ" (adjective like noun) یا ایک خاص قسم کے "اسم ذات" (noun of essence) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
یہاں "م" کا اضافہ دراصل ایک خاص معنی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس وزن پر آنے والے الفاظ اکثر "کام کرنے والے" (فاعل) یا "جس کے ذریعے کوئی کام ہو" (آلہ) یا "جس پر کام کیا جائے" (مفعول) کا مفہوم دیتے ہیں۔
مَلَک کے معاملے میں، یہ وہ ہستی ہے جو اللہ کے پیغامات کو پہنچانے کا کام انجام دیتی ہے۔ گویا اس کا وجود ہی اس کام سے جڑا ہوا ہے۔
یہاں پر "ا" (ہمزہ) کو "م" سے تبدیل کر دیا گیا ہے یا "م" کو بطور سابقہ (prefix) شامل کیا گیا ہے جو عربی میں بہت عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فعل سے مشتق ہو کر ایک اسم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جو کسی ہستی (فرشتے) کی نشاندہی کرتا ہے۔
"أَلَكَ" (فعل: اس نے پیغام پہنچایا)
"مَلَک" (اسم: پیغام پہنچانے والا، فرشتہ)
یہ "مَفْعَلٌ" (Maf'alun) وزن سے بھی مشتق ہو سکتا ہے، جہاں "م" زائد ہوتی ہے اور یہ کسی "جگہ"، "وقت" یا "آلہ" کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، "مَلَک" کے معاملے میں یہ "عمل کرنے والے" (entity) کے معنی میں زیادہ ہے۔
عربی زبان میں کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جہاں "ہمزہ" کو تبدیل کر دیا جاتا ہے جیسے "أمَرَ" (امر) سے "يَأْمُرُ" (یامر) یا بعض اوقات "ء" (ہمزہ) حذف بھی ہو جاتا ہے، یہ صرفی تبدیلیوں کا حصہ ہے۔
نحوی تفصیل
نحو کا تعلق جملے میں الفاظ کے باہمی تعلق، ان کے اعراب (اعراب - grammatical endings)، اور جملے کی ساخت سے ہے۔
مَلَک (Malak) جب کسی جملے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کی نحوی حیثیت اس کے مقام اور اعراب سے متعین ہوتی ہے
اگر یہ فاعل ہو تو مرفوع (nominative) ہوگا۔ مثلاً: جاءَ الْمَلَكُ (فرشتہ آیا) – یہاں "الْمَلَكُ" فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔
اگر یہ مفعول بہ ہو تو منصوب (accusative) ہوگا: رَأَيْتُ مَلَكًا (میں نے ایک فرشتہ دیکھا) – یہاں "مَلَكًا" مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
اگر یہ مجرور (genitive) ہو تو اس سے پہلے حرف جر یا مضاف ہونا ضروری ہے: قُلتُ لِلْمَلَكِ (میں نے فرشتے سے کہا) – یہاں "لِلْمَلَكِ" لام حرف جر کی وجہ سے مجرور ہے۔
جمع کی تشکیل:
"مَلَک" کی جمع "مَلَائکَة" (Malā'ikah) ہے جو عربی میں ایک خاص وزن "فَعَائِلَة" (Fa'a'ilah) پر آتی ہے، جو کہ غیر عاقل کی جمع سالم یا کبھی کبھی عاقل کی جمع تکسیر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ، "ا ل ک" ایک بنیادی مادہ ہے جس سے "أَلَكَ" (فعل) مشتق ہوا، اور پھر اسی مادہ سے "مَلَک" (اسم) "فَعَلٌ" کے وزن پر بنا، جو کہ پیغام پہنچانے والی ہستی (فرشتہ) کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تبدیلی خالصتاً صرفی قواعد کے تحت آتی ہے جو عربی الفاظ کی ساخت کو منظم کرتے ہیں۔